جنات اور موکلات
تحریر و تحقیق : پروفیسر خضر عباس صاحب
اللہ پاک نے ایک لفظ "کن" کہہ کر یہ کائنات اور اس کی ساری مخلوقات کو پیدا فرما دیا. اللہ کی پیدا کردہ کائنات کی وسعتوں کا اندازہ لگانا اور اس کی مخلوقات کا شمار کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ انسان جب کائنات کی وسعت اور مخلوقات پر نظر ڈالتا ہے تو حیران ہو جاتا ہے۔ جو سائنسدان کائنات کی وسعتوں کو کنگھالتے ہیں انہوں نے معلوم شدہ کائنات کی وسعت 93 ارب نوری سال سے زیادہ بتائی ہے جس میں اربوں کہکشائیں، ستارے، سیارے اور دیگر اجسام موجود ہیں۔ زمین پر موجود جانداروں کی لاکھوں انواع دریافت ہو چکی ہیں اور ہر سال ہزاروں نئی مخلوقات دریافت ہو رہی ہیں۔ اور ان سب کا خالق خدائے واحد ہے۔
انسان اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے اپنے حواس خمسہ اور اپنے بنائے ہوئے آلات کے ذریعے کائنات کی وسعتوں اور زمین پر موجود مخلوق پر تحقیق کرتا ہے اور بہت سی چیزیں دریافت اور ایجاد کرتا ہے۔ آج ہم ایسی ایسی حیران کن چیزیں دریافت اور ایجاد کر چکیں ہیں کہ آج سے ایک صدی پیشتر ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اور آئندہ صدی میں وہ کچھ دریافت اور ایجاد ہو چکا ہو گا جس کا صحیح اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ انسانی عقل، حواس اور شعور کا میعار اگرچہ بہت بلند ہے لیکن پھر بھی محدود ہے۔ ہماری آنکھیں ایک مخصوص فریکوئنسی سے زیادہ یا کم کی روشنی کو دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں؛ ہمارے کان ایک محدود فریکوئنسی کی آوازوں کو سن پاتے ہیں اور یہی حال ہمارے دیگر حواس کا ہے۔ ہم اپنے محدود حواس کی بنیاد پر جن چیزوں کا ادراک نہیں کر پاتے ان کا انکار کر دیتے ہیں اور ہمارا یہ رویہ جہالت اور ہٹ دھرمی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
اللہ پاک نے ایک لفظ "کن" کہہ کر یہ کائنات اور اس کی ساری مخلوقات کو پیدا فرما دیا. اللہ کی پیدا کردہ کائنات کی وسعتوں کا اندازہ لگانا اور اس کی مخلوقات کا شمار کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ انسان جب کائنات کی وسعت اور مخلوقات پر نظر ڈالتا ہے تو حیران ہو جاتا ہے۔ جو سائنسدان کائنات کی وسعتوں کو کنگھالتے ہیں انہوں نے معلوم شدہ کائنات کی وسعت 93 ارب نوری سال سے زیادہ بتائی ہے جس میں اربوں کہکشائیں، ستارے، سیارے اور دیگر اجسام موجود ہیں۔ زمین پر موجود جانداروں کی لاکھوں انواع دریافت ہو چکی ہیں اور ہر سال ہزاروں نئی مخلوقات دریافت ہو رہی ہیں۔ اور ان سب کا خالق خدائے واحد ہے۔
انسان اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے اپنے حواس خمسہ اور اپنے بنائے ہوئے آلات کے ذریعے کائنات کی وسعتوں اور زمین پر موجود مخلوق پر تحقیق کرتا ہے اور بہت سی چیزیں دریافت اور ایجاد کرتا ہے۔ آج ہم ایسی ایسی حیران کن چیزیں دریافت اور ایجاد کر چکیں ہیں کہ آج سے ایک صدی پیشتر ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اور آئندہ صدی میں وہ کچھ دریافت اور ایجاد ہو چکا ہو گا جس کا صحیح اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ انسانی عقل، حواس اور شعور کا میعار اگرچہ بہت بلند ہے لیکن پھر بھی محدود ہے۔ ہماری آنکھیں ایک مخصوص فریکوئنسی سے زیادہ یا کم کی روشنی کو دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں؛ ہمارے کان ایک محدود فریکوئنسی کی آوازوں کو سن پاتے ہیں اور یہی حال ہمارے دیگر حواس کا ہے۔ ہم اپنے محدود حواس کی بنیاد پر جن چیزوں کا ادراک نہیں کر پاتے ان کا انکار کر دیتے ہیں اور ہمارا یہ رویہ جہالت اور ہٹ دھرمی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
ہم جن چیزوں سے واقف ہیں وہ دو قسم کی ہیں:-
1. مادی اشیا
2. غیر مادی اشیا
مادی اشیا:-
ان میں وہ اشیا شامل ہیں جو مادے (عناصر) سے مل کر بنی ہیں ان میں بے جان اور جاندار اشیاء شامل ہیں۔ ان میں سب سے پہلے جمادات یعنی بے جان اشیاء آتی ہیں جو وجود تو رکھتی ہیں مگر زندگی، نشوونما، حرکت، شعور اور عقل کی دولت سے محروم ہیں۔ اس کے بعد نباتات کا نمبر آتا ہے، یک خلوی نباتات سے لے کر بڑے بڑے درختوں کا شمار اس نوع میں ہوتا ہے۔ ان میں زندگی اور نشوونما تو ہے، ایک محدود پیمانے پر حرکت بھی ہے مگر ارادے اور عقل و شعور سے عاری ہیں۔ ان کے بعد حیوانات کا نمبر آتا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی یہ مخلوق وجود، زندگی، نشوونما اور حرکت کے ساتھ ساتھ محدود مقدار میں عقل، شعور اور جذبات کے حامل بھی ہیں۔ یک خلوی بیکٹیریا سے لے کر حشرات الارض، پرندے، جانور اور آبی جاندار اسی نوع میں شمار ہوتے ہیں۔
حیوانی حیات کی انتہائی ترقی یافتہ شکل جسے مقدس کتابوں کے مطابق اللہ نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اور اپنی سب سے قابلِ فخر تخلیق قرار دیتے ہوئے اپنا خلیفہ بنایا۔ بے شک یہ جاندار انسان ہے جس کے سر پر اشرف المخلوقات کا تاج جگمگا رہا ہے، جسے اللہ نے احسن تقویم کا مقام عطا کیا ہے۔ اور شاید انسان ہی واحد مخلوق ہے جو اپنے عقل و شعور سے کام لے کر تحقیق کرتا ہے، کائنات کی نئی نئی چیزیں دریافت کرتا ہے اور اپنی سہولت کے لیے نت نئی ایجادات کرتا ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہزاروں سال سے جہاں باقی جاندار ایک سی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں انسان مسلسل ترقی کرتا جا رہا ہے۔
1. مادی اشیا
2. غیر مادی اشیا
مادی اشیا:-
ان میں وہ اشیا شامل ہیں جو مادے (عناصر) سے مل کر بنی ہیں ان میں بے جان اور جاندار اشیاء شامل ہیں۔ ان میں سب سے پہلے جمادات یعنی بے جان اشیاء آتی ہیں جو وجود تو رکھتی ہیں مگر زندگی، نشوونما، حرکت، شعور اور عقل کی دولت سے محروم ہیں۔ اس کے بعد نباتات کا نمبر آتا ہے، یک خلوی نباتات سے لے کر بڑے بڑے درختوں کا شمار اس نوع میں ہوتا ہے۔ ان میں زندگی اور نشوونما تو ہے، ایک محدود پیمانے پر حرکت بھی ہے مگر ارادے اور عقل و شعور سے عاری ہیں۔ ان کے بعد حیوانات کا نمبر آتا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی یہ مخلوق وجود، زندگی، نشوونما اور حرکت کے ساتھ ساتھ محدود مقدار میں عقل، شعور اور جذبات کے حامل بھی ہیں۔ یک خلوی بیکٹیریا سے لے کر حشرات الارض، پرندے، جانور اور آبی جاندار اسی نوع میں شمار ہوتے ہیں۔
حیوانی حیات کی انتہائی ترقی یافتہ شکل جسے مقدس کتابوں کے مطابق اللہ نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اور اپنی سب سے قابلِ فخر تخلیق قرار دیتے ہوئے اپنا خلیفہ بنایا۔ بے شک یہ جاندار انسان ہے جس کے سر پر اشرف المخلوقات کا تاج جگمگا رہا ہے، جسے اللہ نے احسن تقویم کا مقام عطا کیا ہے۔ اور شاید انسان ہی واحد مخلوق ہے جو اپنے عقل و شعور سے کام لے کر تحقیق کرتا ہے، کائنات کی نئی نئی چیزیں دریافت کرتا ہے اور اپنی سہولت کے لیے نت نئی ایجادات کرتا ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہزاروں سال سے جہاں باقی جاندار ایک سی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں انسان مسلسل ترقی کرتا جا رہا ہے۔
غیر مادی اشیاء:-
ان میں وہ اشیا شامل ہیں جن کا کوئی مادی وجود نہیں ہے مگر پھر بھی موجود ہیں۔ جیسے توانائی کی مختلف شکلیں مثلاً روشنی، حرارت، بجلی، کشش ثقل، آواز، برقی مقناطیسی لہریں، ڈارک انرجی وغیرہ۔
یہاں تک جو باتیں لکھی ہیں ان کو سائنس مانتی ہے لیکن اس کے بعد جو باتیں لکھنے لگا ہوں وہ سائنس کے دائرے میں نہیں آتیں۔ یہ مذہب، نفسیات، مابعد الطبیعیات، فلسفے، روحانیت اور اس طرح کے دیگر مضامین کی باتیں ہیں۔
ہم جس طرح مادی اشیاء کا جاندار اور بے جان اشیاء میں تقسیم کر سکتے ہیں اسی طرح یہ تقسیم غیر مادی اشیاء میں بھی موجود ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی غیر مادی مخلوق میں روح، فرشتے اور جنات شامل ہیں۔ ان تمام مخلوقات کا تذکرہ قرآن پاک اور دیگر مقدس کتابوں میں موجود ہے۔
روح اللہ کا امر ہے جس کی وجہ سے ہر جاندار زندہ ہے۔ جب روح بدن کا ساتھ چھوڑ جائے تو موت واقع ہو جاتی ہے اور خالی جسم کسی کام کا نہیں رہتا۔ قرآن مجید میں اللہ روح کے بارے میں یوں ارشاد فرماتا ہے۔
ان میں وہ اشیا شامل ہیں جن کا کوئی مادی وجود نہیں ہے مگر پھر بھی موجود ہیں۔ جیسے توانائی کی مختلف شکلیں مثلاً روشنی، حرارت، بجلی، کشش ثقل، آواز، برقی مقناطیسی لہریں، ڈارک انرجی وغیرہ۔
یہاں تک جو باتیں لکھی ہیں ان کو سائنس مانتی ہے لیکن اس کے بعد جو باتیں لکھنے لگا ہوں وہ سائنس کے دائرے میں نہیں آتیں۔ یہ مذہب، نفسیات، مابعد الطبیعیات، فلسفے، روحانیت اور اس طرح کے دیگر مضامین کی باتیں ہیں۔
ہم جس طرح مادی اشیاء کا جاندار اور بے جان اشیاء میں تقسیم کر سکتے ہیں اسی طرح یہ تقسیم غیر مادی اشیاء میں بھی موجود ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی غیر مادی مخلوق میں روح، فرشتے اور جنات شامل ہیں۔ ان تمام مخلوقات کا تذکرہ قرآن پاک اور دیگر مقدس کتابوں میں موجود ہے۔
روح اللہ کا امر ہے جس کی وجہ سے ہر جاندار زندہ ہے۔ جب روح بدن کا ساتھ چھوڑ جائے تو موت واقع ہو جاتی ہے اور خالی جسم کسی کام کا نہیں رہتا۔ قرآن مجید میں اللہ روح کے بارے میں یوں ارشاد فرماتا ہے۔
سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر 85
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ ۖ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا۔
ترجمہ:-
(اے پیغمبر! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ لوگ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں۔کہہ دیجیے: روح تو میرے رب کا "امر" ہے. اور تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔
فرشتے اللہ تعالیٰ کی وہ مخلوق ہیں جنہیں نور سے پیدا کیا گیا ہے۔ نور بھی توانائی کی ایک شکل ہے۔ یہ ایسی مقدس اور پاک شکل ہے کہ اس سے بننے والے فرشتوں میں نافرمانی کی صلاحیت نہیں ہوتی اور وہ ہمہ وقت اللہ کی عبادت، اس کی تسبیح و تقدیس بیان کرنے یا اللہ کی طرف سے عائد کی گئی ذمہ داریاں پوری کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ اور وہ سیکنڈ کے کروڑویں حصے کے لیے بھی اپنی ذمہ داریوں سے غافل اور اپنے پروردگار کی اطاعت سے باہر نہیں ہو سکتے۔
فرشتوں کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے آگ (نارِ سموم) سے ایک مخلوق پیدا کی ہے جسے جنات کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں جنات کے وجود اور تخلیق کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا مادہ تخلیق آگ بتایا گیا۔ کیونکہ آگ میں سرکشی، گرمی اور نافرمانی کا عنصر پایا جاتا ہے اس لیے اس آگ سے بننے والی مخلوق یعنی جنات میں سرکشی، نافرمانی اور غصے کا عنصر پایا جاتا ہے۔ جنات میں فرمانبردار اور نافرمان ہر طرح کے جنات پائے جاتے ہیں۔ جن، بھوت، دیو، پریت، سایہ، بدورح، چھلاوا، بڈاوا، آسیب، پچھل پائی اور پری وغیرہ یہ سب جنات کی ہی مختلف اقسام اور ان کے مختلف روپ ہیں۔
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ ۖ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا۔
ترجمہ:-
(اے پیغمبر! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ لوگ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں۔کہہ دیجیے: روح تو میرے رب کا "امر" ہے. اور تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔
فرشتے اللہ تعالیٰ کی وہ مخلوق ہیں جنہیں نور سے پیدا کیا گیا ہے۔ نور بھی توانائی کی ایک شکل ہے۔ یہ ایسی مقدس اور پاک شکل ہے کہ اس سے بننے والے فرشتوں میں نافرمانی کی صلاحیت نہیں ہوتی اور وہ ہمہ وقت اللہ کی عبادت، اس کی تسبیح و تقدیس بیان کرنے یا اللہ کی طرف سے عائد کی گئی ذمہ داریاں پوری کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ اور وہ سیکنڈ کے کروڑویں حصے کے لیے بھی اپنی ذمہ داریوں سے غافل اور اپنے پروردگار کی اطاعت سے باہر نہیں ہو سکتے۔
فرشتوں کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے آگ (نارِ سموم) سے ایک مخلوق پیدا کی ہے جسے جنات کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں جنات کے وجود اور تخلیق کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا مادہ تخلیق آگ بتایا گیا۔ کیونکہ آگ میں سرکشی، گرمی اور نافرمانی کا عنصر پایا جاتا ہے اس لیے اس آگ سے بننے والی مخلوق یعنی جنات میں سرکشی، نافرمانی اور غصے کا عنصر پایا جاتا ہے۔ جنات میں فرمانبردار اور نافرمان ہر طرح کے جنات پائے جاتے ہیں۔ جن، بھوت، دیو، پریت، سایہ، بدورح، چھلاوا، بڈاوا، آسیب، پچھل پائی اور پری وغیرہ یہ سب جنات کی ہی مختلف اقسام اور ان کے مختلف روپ ہیں۔
ا۔۔۔۔
گزشتہ قسط میں ہم نے جنات کے وجود کے بارے میں پڑھا۔ جنات اللہ پاک کی پیدا کردہ ایک مخلوق ہے۔ انہیں اللہ پاک نے آگ سے پیدا فرمایا۔ انسان کے علاوہ جنات بھی احکام شریعت پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ اللہ پاک نے ان میں بھی انبیاء کرام بھیجے۔ یہ انبیاء جنوں میں سے بھی تھے اور انسانوں میں سے بھی۔ جیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جنوں پر بھی حکومت کرتے رہے۔ اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ صرف انسانوں بلکہ جنات کے لیے بھی پیغمبر بن کر آئے ہیں۔ قرآن پاک کی سورۃ الجن میں جنوں کے ایک جماعت کا تذکرہ آیا ہے جنہوں نے قرآن پاک کی تلاوت سنی اور آپ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کیا اور اپنے اپنے قبیلوں میں تبلیغ کے لیے گئے۔ جنات عام طور پر انسانی روپ میں اولیائے کرام اور علمائے کرام کے پاس آ کر فیض حاصل کرتے ہیں۔
زمین پر انسانوں کی آبادی سے بہت پہلے جنوں کی آبادیاں موجود تھیں اور آج بھی موجود ہیں۔ یہ بھی ہم انسانوں کی طرح قبائل، اور برادریوں کی شکل میں رہتے ہیں۔ ان میں بھی ذات پات، امیر غریب اور مختلف مذاہب اور فرقوں کی تقسیم پائی جاتی ہے۔ یہ جنات مسلمان، کافر، مشرک، بت پرست، ہندو، عیسائی، یہودی اور سکھ بھی ہوتے ہیں۔ اس کے بعد جنات میں فرقے بھی ہوتے ہیں۔ ان کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے جو کہ توانائی کی ایک شکل ہے اس لیے ہم انہیں ان کی اصل شکل میں دیکھ نہیں سکتے۔ ایسے افراد جو روحانی طور پر کسی مرتبے پر فائز ہوتے ہیں وہ ان کی موجودگی کو محسوس کر لیتے ہیں اور ان سے رابطہ بھی قائم کر لیتے ہیں لیکن عام فرد کے لیے انہیں محسوس کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ ہاں اگر کوئی جن اپنی موجودگی کا احساس دلانا چاہے تو دلا سکتا ہے۔
جنات اپنی مرضی کی کسی بھی شکل میں آ سکتے ہیں، چاہے وہ کسی انسان کی ہو، جانور کی یا پرندے وغیرہ کی۔ جنات فقط انبیاء کرام کی شکلوں میں نہیں آ سکتے۔
کچھ لوگ جنات سے رابطہ قائم کر لیتے ہیں۔ اس رابطے کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔ بعض اوقات کسی بہت ہی نیک یا عالم فاضل انسان سے فیض حاصل کرنے جنات انسانی شکل میں ان کے پاس آ جاتے ہیں۔ کبھی کبھار یہ اپنی اصلیت ظاہر کر دیتے ہیں اور کبھی کبھار اپنی اصلیت ظاہر کیے بغیر ہی فیض یاب ہوتے رہتے ہیں اور اگر کسی طرح ان کی اصلیت ظاہر ہو جائے تو یہ چلے جاتے ہیں۔ بعض اوقات کسی وجہ سے کوئی جن کسی انسان پر مسلط ہو جاتا ہے اور اسے ستانے لگتا ہے جس کی وجہ سے وہ انسان بیمار پڑ جاتا ہے یا پاگلوں جیسی حرکتیں کرتا ہے۔ بعض اوقات کسی لڑکی یا عورت کے حسن سے متاثر ہو کر کوئی جن اس پر عاشق ہو جاتا ہے اور انسانی روپ اختیار کر کے اس کے ساتھ وقت بھی گزارتا ہے۔ بعض اوقات کسی حسین و جمیل مرد کی وجاہت سے متاثر ہو کر کوئی جن زادی اس پر عاشق ہو جاتی ہے اور کسی حسین روپ میں آ کر اس کے ساتھ وقت گزارتی ہے۔ لیکن یہ تعلق انسان برداشت نہیں کر پاتا اس ناری مخلوق کی حدت کو برداشت کرنا انسان کا کام نہیں ہے اس لیے بہت کم عرصے میں ہی ایسا تعلق انسان کو جسمانی لحاظ سے برباد کر دیتا ہے۔ اگر کوئی عامل اس کی جان چھڑائے تو بچ جاتا ہے ورنہ مر جاتا ہے۔
کبھی کبھار کوئی عامل چلہ کاٹ کر جنات کو قبضے میں کر لیتا ہے اور پھر ان سے کام لیتا ہے۔
جنات کے چلے کے سلسلے میں سب سے پہلے تو یہ بات ذہن میں رکھ لیں کہ یہ بہت مشکل کام ہے۔ اس کے لیے مکمل پرہیز اور استاد کی اجازت اور حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی بھی آزاد مخلوق اپنی مرضی اور آسانی سے قید میں آنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ اس لیے چلے کے دوران میں جنات مختلف روپ بدل بدل کر ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں "جو ڈر گیا؛ سمجھو مر گیا۔" جنات کا ڈرا ہوا اگر مرنے سے بچ بھی گیا تو باقی زندگی مرنے سے بدتر گزرے گی یعنی اس کا دماغ الٹ جائے گا اور وہ پاگل ہو جائے گا۔
جنات کو قبضے میں کرنے کے لیے ایک نوری عمل ہے جو قرآن پاک کی مخصوص آیات اور سورتوں یا دعاؤں کو مخصوص طریقے سے کیا جاتا ہے۔ ان میں سورۃ جن، سورۃ یٰسین، سورۃ ملک، سورۃ مزمل، سورۃ ضحی، سورۃ الرحمٰن، سورۃ فاتحہ اور نادِ علی وغیرہ جیسی دعاؤں سے کام لیا جاتا ہے۔ دوسرا سفلی یا کالا علم ہے جس میں جنات کے نام پر جانور ذبح کرنے اور شیطانی منتروں کے ذریعے جنات کو حاضر کیا جاتا ہے۔ نوری عمل مسلمان جنات کے لیے کیا جاتا ہے اور سفلی عمل اور کالے جادو سے کافر جنات کو قابو کیا جاتا ہے۔ یہ عمل کسی مخصوص جن کے نام پر یا بغیر نام کے کیا جاتا ہے۔ اگر کسی مخصوص جن کے نام پر عمل کیا جائے تو وہ جن حاضری دیتا ہے اور اگر بغیر نام کے عمل کیا جائے تو اس عمل کی کشش سے اس پاس موجود جنات اس طرف مائل ہو کر حاضری دیتے ہیں اس لیے ایسے چلے قبرستانوں اور ویران جگہوں پر کیے جاتے ہیں جہاں جنات کے ملنے کے امکانات ہوتے ہیں۔
اچھا تو فرض کرتے ہیں آپ چلے کے مراحل سے گزر گئے اور جن کی حاضری ہو گئی اب جن نے سب سے پہلے آپ سے یہی پوچھنا ہے کہ مجھے کیوں بلایا ہے۔ یہاں جن اور عامل کے درمیان ڈائیلاگ ہوتا ہے اور پھر ایک معاہدہ ہوتا ہے جس میں کچھ باتیں عامل مانتا ہے اور کچھ جن کو ماننی پڑتی ہیں۔
۔۔۔۔۔ جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
اس معاہدے کا طریقہ اور تفصیل جاننے کے لیے ہمارے ساتھ رہیں اور تیسری قسط کا انتظار کریں۔
تحریر اور تحقیق: پروفیسر خضر عباس
کاپی پیسٹ کرنے کی بجائے شئیر کریں۔ مصنف کا حوالہ دیے بغیر کاپی پیسٹ کرنا اخلاقی جرم ہے۔
گزشتہ قسط میں ہم نے جنات کے وجود کے بارے میں پڑھا۔ جنات اللہ پاک کی پیدا کردہ ایک مخلوق ہے۔ انہیں اللہ پاک نے آگ سے پیدا فرمایا۔ انسان کے علاوہ جنات بھی احکام شریعت پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ اللہ پاک نے ان میں بھی انبیاء کرام بھیجے۔ یہ انبیاء جنوں میں سے بھی تھے اور انسانوں میں سے بھی۔ جیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جنوں پر بھی حکومت کرتے رہے۔ اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ صرف انسانوں بلکہ جنات کے لیے بھی پیغمبر بن کر آئے ہیں۔ قرآن پاک کی سورۃ الجن میں جنوں کے ایک جماعت کا تذکرہ آیا ہے جنہوں نے قرآن پاک کی تلاوت سنی اور آپ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کیا اور اپنے اپنے قبیلوں میں تبلیغ کے لیے گئے۔ جنات عام طور پر انسانی روپ میں اولیائے کرام اور علمائے کرام کے پاس آ کر فیض حاصل کرتے ہیں۔
زمین پر انسانوں کی آبادی سے بہت پہلے جنوں کی آبادیاں موجود تھیں اور آج بھی موجود ہیں۔ یہ بھی ہم انسانوں کی طرح قبائل، اور برادریوں کی شکل میں رہتے ہیں۔ ان میں بھی ذات پات، امیر غریب اور مختلف مذاہب اور فرقوں کی تقسیم پائی جاتی ہے۔ یہ جنات مسلمان، کافر، مشرک، بت پرست، ہندو، عیسائی، یہودی اور سکھ بھی ہوتے ہیں۔ اس کے بعد جنات میں فرقے بھی ہوتے ہیں۔ ان کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے جو کہ توانائی کی ایک شکل ہے اس لیے ہم انہیں ان کی اصل شکل میں دیکھ نہیں سکتے۔ ایسے افراد جو روحانی طور پر کسی مرتبے پر فائز ہوتے ہیں وہ ان کی موجودگی کو محسوس کر لیتے ہیں اور ان سے رابطہ بھی قائم کر لیتے ہیں لیکن عام فرد کے لیے انہیں محسوس کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ ہاں اگر کوئی جن اپنی موجودگی کا احساس دلانا چاہے تو دلا سکتا ہے۔
جنات اپنی مرضی کی کسی بھی شکل میں آ سکتے ہیں، چاہے وہ کسی انسان کی ہو، جانور کی یا پرندے وغیرہ کی۔ جنات فقط انبیاء کرام کی شکلوں میں نہیں آ سکتے۔
کچھ لوگ جنات سے رابطہ قائم کر لیتے ہیں۔ اس رابطے کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔ بعض اوقات کسی بہت ہی نیک یا عالم فاضل انسان سے فیض حاصل کرنے جنات انسانی شکل میں ان کے پاس آ جاتے ہیں۔ کبھی کبھار یہ اپنی اصلیت ظاہر کر دیتے ہیں اور کبھی کبھار اپنی اصلیت ظاہر کیے بغیر ہی فیض یاب ہوتے رہتے ہیں اور اگر کسی طرح ان کی اصلیت ظاہر ہو جائے تو یہ چلے جاتے ہیں۔ بعض اوقات کسی وجہ سے کوئی جن کسی انسان پر مسلط ہو جاتا ہے اور اسے ستانے لگتا ہے جس کی وجہ سے وہ انسان بیمار پڑ جاتا ہے یا پاگلوں جیسی حرکتیں کرتا ہے۔ بعض اوقات کسی لڑکی یا عورت کے حسن سے متاثر ہو کر کوئی جن اس پر عاشق ہو جاتا ہے اور انسانی روپ اختیار کر کے اس کے ساتھ وقت بھی گزارتا ہے۔ بعض اوقات کسی حسین و جمیل مرد کی وجاہت سے متاثر ہو کر کوئی جن زادی اس پر عاشق ہو جاتی ہے اور کسی حسین روپ میں آ کر اس کے ساتھ وقت گزارتی ہے۔ لیکن یہ تعلق انسان برداشت نہیں کر پاتا اس ناری مخلوق کی حدت کو برداشت کرنا انسان کا کام نہیں ہے اس لیے بہت کم عرصے میں ہی ایسا تعلق انسان کو جسمانی لحاظ سے برباد کر دیتا ہے۔ اگر کوئی عامل اس کی جان چھڑائے تو بچ جاتا ہے ورنہ مر جاتا ہے۔
کبھی کبھار کوئی عامل چلہ کاٹ کر جنات کو قبضے میں کر لیتا ہے اور پھر ان سے کام لیتا ہے۔
جنات کے چلے کے سلسلے میں سب سے پہلے تو یہ بات ذہن میں رکھ لیں کہ یہ بہت مشکل کام ہے۔ اس کے لیے مکمل پرہیز اور استاد کی اجازت اور حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی بھی آزاد مخلوق اپنی مرضی اور آسانی سے قید میں آنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ اس لیے چلے کے دوران میں جنات مختلف روپ بدل بدل کر ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں "جو ڈر گیا؛ سمجھو مر گیا۔" جنات کا ڈرا ہوا اگر مرنے سے بچ بھی گیا تو باقی زندگی مرنے سے بدتر گزرے گی یعنی اس کا دماغ الٹ جائے گا اور وہ پاگل ہو جائے گا۔
جنات کو قبضے میں کرنے کے لیے ایک نوری عمل ہے جو قرآن پاک کی مخصوص آیات اور سورتوں یا دعاؤں کو مخصوص طریقے سے کیا جاتا ہے۔ ان میں سورۃ جن، سورۃ یٰسین، سورۃ ملک، سورۃ مزمل، سورۃ ضحی، سورۃ الرحمٰن، سورۃ فاتحہ اور نادِ علی وغیرہ جیسی دعاؤں سے کام لیا جاتا ہے۔ دوسرا سفلی یا کالا علم ہے جس میں جنات کے نام پر جانور ذبح کرنے اور شیطانی منتروں کے ذریعے جنات کو حاضر کیا جاتا ہے۔ نوری عمل مسلمان جنات کے لیے کیا جاتا ہے اور سفلی عمل اور کالے جادو سے کافر جنات کو قابو کیا جاتا ہے۔ یہ عمل کسی مخصوص جن کے نام پر یا بغیر نام کے کیا جاتا ہے۔ اگر کسی مخصوص جن کے نام پر عمل کیا جائے تو وہ جن حاضری دیتا ہے اور اگر بغیر نام کے عمل کیا جائے تو اس عمل کی کشش سے اس پاس موجود جنات اس طرف مائل ہو کر حاضری دیتے ہیں اس لیے ایسے چلے قبرستانوں اور ویران جگہوں پر کیے جاتے ہیں جہاں جنات کے ملنے کے امکانات ہوتے ہیں۔
اچھا تو فرض کرتے ہیں آپ چلے کے مراحل سے گزر گئے اور جن کی حاضری ہو گئی اب جن نے سب سے پہلے آپ سے یہی پوچھنا ہے کہ مجھے کیوں بلایا ہے۔ یہاں جن اور عامل کے درمیان ڈائیلاگ ہوتا ہے اور پھر ایک معاہدہ ہوتا ہے جس میں کچھ باتیں عامل مانتا ہے اور کچھ جن کو ماننی پڑتی ہیں۔
۔۔۔۔۔ جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
اس معاہدے کا طریقہ اور تفصیل جاننے کے لیے ہمارے ساتھ رہیں اور تیسری قسط کا انتظار کریں۔
تحریر اور تحقیق: پروفیسر خضر عباس
کاپی پیسٹ کرنے کی بجائے شئیر کریں۔ مصنف کا حوالہ دیے بغیر کاپی پیسٹ کرنا اخلاقی جرم ہے۔